پہلا باب:
خوابوں کی دستک
انیہ کی آنکھ ایک جھٹکے سے کھلی۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا، ماتھے پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے، اور سانسیں بے ترتیب تھیں۔ کمرے کی نیم تاریکی میں، وہ چند لمحوں تک ساکت بیٹھی رہی، خواب کی دھندلی تصویریں ذہن میں گردش کر رہی تھیں۔ خوف اور بے چینی کے احساس نے اسے گھیر رکھا تھا۔
کچھ دیر بعد، اس نے خود کو سنبھالا اور بستر سے اتر کر کمرے کے کونے میں بیٹھ گئی۔ اس کے ہاتھ ابھی تک کانپ رہے تھے، اور دل کی دھڑکن معمول پر آنے میں وقت لے رہی تھی۔ اس نے گہری سانسیں لیں اور خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کی۔
جب دل کی دھڑکن کچھ معتدل ہوئی، تو وہ اٹھی اور سائیڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس اٹھایا۔ پانی کے چند گھونٹ پینے کے بعد، اس کی نظریں قرآن پاک پر پڑیں جو میز پر رکھا تھا۔ اس نے قرآن اٹھایا اور پڑھنا شروع کیا، تاکہ دل کو سکون مل سکے اور ذہن کی بے چینی کم ہو۔
قرآنی آیات کی تلاوت کرتے ہوئے، اس نے دل ہی دل میں اللہ سے دعا کی اور اپنے خواب کی الجھنیں اس کے سامنے پیش کیں۔ آہستہ آہستہ، اس کا دل مطمئن ہونے لگا، اور خوف کی جگہ سکون نے لے لی۔
اس رات کے بعد، انیہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے خوابوں کی حقیقت جاننے کی کوشش کرے گی، تاکہ ان میں چھپے پیغام کو سمجھ سکے اور اپنی بے چینی کا حل تلاش کر سکے۔
"آپی، سونے دو نا، سارا..." انیہ نے کروٹ بدل کر کمبل میں اور دبکنے کی کوشش کی، مگر سارہ کہاں چھوڑنے والی تھی۔
"بہت سو لیا تم نے، اب اٹھو! ہم نے آج شاپنگ پر جانا ہے، سب جا رہے ہیں۔ تمہارے پاس صرف پانچ منٹ ہیں، ورنہ میں زبردستی اٹھا دوں گی!"
سارہ کے نکلتے ہی انیہ نے ایک لمبی سانس لی، پھر زبردستی نیند جھاڑ کر اٹھ بیٹھی۔ ان کی کزنز کی آپس میں بہت بنتی تھی، ہر وقت ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے تھے، لیکن ساتھ ہی خوب تنگ بھی کرتے تھے۔
ابھی وہ بال سمیٹ ہی رہی تھی کہ علی نے زین کو کہنی ماری، "دیکھ، آج انیہ نے بال کھول رکھے ہیں۔"
زین نے غور سے دیکھا، پھر مصنوعی سنجیدگی سے بولا، "یار، کچھ گڑبڑ لگ رہی ہے۔ آج بڑی خاموشی ہے!"
علی نے ہنسی دباتے ہوئے کہا، "ہاں، کیونکہ طوفان سے پہلے ہمیشہ خاموشی ہوتی ہے!"
انیہ نے ان کی سرگوشیاں سن لیں اور فوراً سمجھ گئی کہ اس کے 'بال' زیر بحث ہیں۔ وہ غصے سے بولی، "زین موٹے، آج تمہاری برتھ ڈے ہے نا؟ میں تمہیں ایکسرسائز مشین گفٹ کرنے والی ہوں، تاکہ تمہاری صحت کا کچھ خیال رکھا جا سکے!"
سب کے قہقہے بلند ہو گئے، اور زین نے مظلومیت سے پیٹ پر ہاتھ مار کر کہا، "ابھی تو میں کھاتا بھی کم ہوں، تم لوگوں نے پہلے ہی مجھے موٹا ڈیکلیئر کر دیا!"
علی نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مزید چھیڑا، "یار، اس پیٹ کے ساتھ تمہیں کوئی اپنی لڑکی نہیں دے گا!"
گاڑی میں زبردست ہنسی مذاق چل رہا تھا کہ اچانک بریک لگنے سے سب اچھل پڑے۔ ایک اور کار سامنے سے خطرناک انداز میں آئی اور پھر اس کا ڈرائیور اُلٹا انیہ اور اس کے کزنز کو گھورنے لگا جیسے قصور انہی کا ہو۔
انیہ تو پہلے ہی بھری بیٹھی تھی، فوراً باہر نکل آئی۔ "مسئلہ کیا ہے بھائی؟" وہ غصے سے بولی۔
اس کے کزنز نے اسے روکنے کی کوشش کی، مگر تب تک انیہ کا غصہ آسمان چھو رہا تھا۔
"میرے کزنز تمہیں چھوڑیں گے نہیں!" انیہ نے جوش میں ایک پتھر اٹھا کر اچھال دیا، جو سیدھا اس لڑکے کے سر پر جا لگا۔ وہ تینوں لڑکے حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔
علی، زین اور عمر نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، پھر اشارہ کیا، "ون، ٹو، تھری... بھاااااگ!"
انیہ سکتے میں آ گئی۔ اسے لگا تھا کہ سب مل کر ان لڑکوں کی دُھلائی کریں گے، مگر یہاں تو اس کے اپنے ہی ساتھی میدان چھوڑ کر بھاگ گئے!
"جاہل! نان سینس! ایڈیٹس!" وہ پیچھے سے چیخی، مگر کوئی سننے والا نہیں تھا۔
بھاگتے بھاگتے سب کی سانسیں پھول گئیں اور پیاس سے برا حال ہو گیا۔ انیہ نے ہاتھ کمر پر رکھ کر سب کو گھورا، "یار، ہم کیوں بھاگ رہے تھے؟ وہ تینوں تو ہمارے پیچھے آئے ہی نہیں۔"
علی نے کان کھجایا، "پتہ نہیں، پر بھاگنے میں مزہ آیا۔"
"مزہ آیا؟" انیہ نے غصے سے پانی کی بوتل اٹھا کر علی کے سر پر رکھنے کی دھمکی دی۔ "آئندہ کسی جھگڑے میں میں تم لوگوں پر بھروسہ نہیں کرنے والی!"
سب ایک کیفے میں بیٹھے کولڈ ڈرنک پی رہے تھے، جب سارہ نے سنجیدگی سے کہا، "یہ بات گھر نہیں جانی چاہیے، ورنہ انیہ کی خیر نہیں۔"
زین سر ہلا کر بولا، "ہاں، کیونکہ جو بھی ہو، سزا ہمیشہ انیہ کو ہی ملتی ہے!"
سب نے اثبات میں سر ہلایا، اور انیہ نے بےبسی سے گلاس میں موجود برف کو گھورا، جیسے وہی اس کے دُکھ کا واحد گواہ ہو۔
If you enjoyed this novel, please leave your feedback in the comments to motivate me to write the next part. Your support is essential, and you can read this novel in any language by selecting your preferred option. Feel free to share it with friends, and if you're interested in the next installment, don't forget to follow. Thank you! — LifeBitsByMe
No comments:
Post a Comment