قسط 1
"میں دفن ہونے سے پہلے مر جاؤں گا، یہ خواب ہے یا کوئی پیشگوئی؟'
رات کے سائے گھر کی دیواروں پر لرز رہے تھے۔ روشنیوں کی جھلملاہٹ میں خوشیوں کے رنگ بکھرے تھے،
کچھ سائے ہمیشہ اندھیرے میں ہی رہ جاتے ہیں۔ زین کی سالگرہ تھی، اور پورا گھر ہنسی مذاق، رونق اور تیار می مصروف تھا۔
لیکن انیہ کے لیے یہ سب ایک الگ ہی دنیا تھی۔ سب خوش تھے، سب ہنس رہے تھے، مگر اس کے اندر ایک عجب سا سکوت تھا، ایک شور جو باہر نظر نہیں آتا تھا۔ وہ سب کے درمیان ہوتے ہوئے بھی کہیں اور تھی۔
وہ اکثر سوچتی کہ کیوں کچھ لوگوں کے اندر کے درد کبھی ختم نہیں ہوتے؟ کیوں وہ خوشی کے لمحوں میں بھی کوئی خلا محسوس کرتے ہیں؟ کیا یہ محض خیالات ہیں یا حقیقت میں کچھ ایسا ہے جو نظر نہیں آتا؟ انیہ جانتی تھی کہ اس کے سوالوں کے جواب شاید کسی کے پاس نہیں، مگر پھر بھی وہ خود سے یہ سب پوچھتی رہتی تھی۔
یہ خواب کی کھوج بس وہ اپنے دل میں سوچتی ہے۔
کرداروں کا تعارف:
انیہ اور سارہ دو بہنیں تھیں، جن کے والد کا انتقال ہو چکا تھا۔
علی اور نور بڑے چچا کے بچے تھے۔ علی سمجھدار اور سب کا خیال رکھنے والا جبکہ نور معصوم سی مگر چالاک تھی۔
شمیر، نتاشا اور زین چھوٹے چچا کے بچے تھے۔ شمیر سب سے بڑا اور سنجیدہ، نتاشا سب سے چالاک، سب سے شوخ، اور سب سے زیادہ خفیہ باتوں کی ماہر، جبکہ زین سب سے چھوٹا اور انتہائی مزاحیہ، جس کی باتوں پر سب ہنستے نہ تھکتے تھے۔
دادی اس گھر کی روح تھیں، جن کے بغیر سب بکھر جاتا۔
یہ سب ایک ہی گھر میں رہتے تھے، جہاں ہر دن ایک نیا ہنگامہ، ایک نئی کہانی اور کچھ پرانے راز ہوا میں بکھرے رہتے تھے۔
انیہ کی آزمائش
گھر میں زین کی سالگرہ کی تیاری جاری تھی۔ سب اپنی تیاریوں میں مصروف تھے، کہ انیہ کو پیاس لگی اور وہ کچن میں پانی لینے چلی گئی۔ جیسے ہی اس کی نظر اپنی ماں کے پسندیدہ ڈنر سیٹ پر پڑی، وہ بے اختیار اس کی خوبصورتی میں کھو گئی۔ مگر جیسے ہی اس نے ہاتھ بڑھایا، اچانک اس کا پاؤں پھسلا، اور پلیٹیں زمین پر جا گریں۔
ایک لمحے کے اندر شور مچ گیا۔ انیہ کی ماں شمع فوراً کچن میں آ دھمکی، اور چلاتے ہوئے بولی، "یہ منحوس آج بھی سب برباد کرنے پر تلی ہے! ہمیشہ کی طرح نحوست پھیلا دی۔ کاش یہ پیدا ہوتے ہی مر جاتی!"
دادی نے کچن میں آ کر تسلی دینے کی کوشش کی، "شمع بیٹا، کیا ہو گیا ہے؟ مہمانوں سے بھرا گھر ہے، اور تم آج بھی اس بیچاری پر چیخ رہی ہو؟"
بڑی چچی نصرت نے بھی شمع کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی، "ارے بہن، بس ایک ڈنر سیٹ ہی تو تھا۔ میں اپنا دے دیتی ہوں، اتنی سی بات پر بچی کو سب کے سامنے ذلیل کرنا ضروری تھا؟ جو ہونا تھا وہ ہوگیا،ای مرضی تھی۔"
دور ایک کونے میں کھڑی انیہ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس نے اپنے دل میں سوچا، کیا یہ میری سگی ماں ہے؟ اگر میں پیدا ہوتے ہی مر جاتی، تو شاید سب خوش ہوتے۔ یہ کہتے ہی وہ بھاگ کر اپنے کمرے میں گئی اور دروازہ بند کر لیا۔
سارہ، جو اپنی بہن سے بے حد محبت کرتی تھی، خاموشی سے دروازے کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ "اگر میری بہن باہر نہیں جائے گی، تو میں بھی نہیں جاؤں گی۔" اس کی آواز میں ضد اور محبت کی آمیزش تھی۔
ادھر سب نے انیہ کی کمی شدت سے محسوس کی، خاص طور پر علی، نور، زین اور دادی کو۔ زین، جو ہمیشہ انیہ کو تنگ کرتا تھا، بھی خاموش تھا۔ سب مانتے تھے کہ گھر کی رونق انیہ کی وجہ سے تھی۔ اگر وہ چپ ہو جاتی، تو جیسے سب کچھ ماند پڑ جاتا۔
رات کا منصوبہ
سب کے چہرے اداس تھے، مگر زین، علی اور عمر کے ذہن میں ایک نیا خیال آ چکا تھا۔ "یار، انیہ کا موڈ ٹھیک کرنا ہے، تو کچھ دھماکے دار کرنا پڑے گا،" زین نے شرارت سے کہا۔
علی نے مسکراتے ہوئے کہا، "میرے پاس ایک پلان ہے۔ کیوں نہ ہم ایک ایڈونچر پر نکلیں؟" عمر اور زین فوراً مان گئے۔ نور کو بلایا گیا، اور پورا پلان ترتیب دیا جانے لگا۔
"سب سے پہلے، نتاشا کو منانا ہوگا،" زین نے سوچتے ہوئے کہا۔ نتاشا سب سے زیادہ شکی تھی، مگر ساتھ ہی سب سے زیادہ تجسس بھی رکھتی تھی۔ وہ جاسوس بننے کا خواب دیکھتی تھی، اس لیے جب زین نے کہا، "نتاشا، تمہاری ایک خاص ذمہ داری ہے،" تو وہ فوراً متوجہ ہو گئی۔
"ہمیں سب کو سلا کر نکلنا ہوگا، اور یہ کام صرف تم کر سکتی ہو۔" زین نے آنکھ مارتے ہوئے کہا۔
نتاشا نے ہنستے ہوئے جواب دیا، "تو چائے میں نیند کی دوا ملانی ہوگی؟ یہ کام میرے حوالے!" اور وہ چائے بنانے چلی گئی۔
کچھ دیر بعد، سب لاونج میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ دادی نے خوش ہو کر کہا، "نتاشا بیٹا، آج تو تم نے سب کے لیے بڑی محبت سے چائے بنائی ہے!" شمیر نے چسکی لی، اور چند لمحوں میں ہی اس کی آنکھیں بوجھل ہونے لگیں۔ نور اور علی نے بے فکری سے چائے پی لی، اور رفتہ رفتہ سب نیند کی وادی میں اترنے لگے۔
"یہ ہوئی نا بات!" زین نے خوش ہو کر سرگوشی کی۔ "اب سب کچھ ہمارے کنٹرول میں ہے۔" سب نے سر ہلایا، اور انیہ کے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔
انیہ کے کمرے میں سب پہنچے۔ وہ اب بھی ناراض تھی۔ "میں تب ہی مانوں گی، جب تم میری بکٹ لسٹ میں سے ایک خواہش پوری کرو گے!"
سب نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا، جیسے کہہ رہے ہوں، "آل کلئیر!"
"تو پھر، پارٹنر، کیوں نہ آج جنگل کی سیر ہو جائے؟" زین نے مسکراتے ہوئے کہا۔
انیہ کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ وہ ہمیشہ سے مہم جوئی پسند کرتی تھی، اور آج اسے اپنے خواب کے متعلق حقیقت جاننے کا موقع مل رہا تھا۔ وہ خواب جس میں وہ ہمیشہ ایک کھائی دیکھتی تھی، اور ایک آواز سنائی دیتی تھی: "I will die before you bury me!"
"کہاں کھو گئی، انیہ؟ چلو، ہمیں صبح پانچ بجے سے پہلے واپس بھی آنا ہے!" زین نے جلدی سے کہا۔
اور پھر، سب ایک نئی مہم کے لیے نکل پڑے، اس رات کے اندھیرے میں، اس حویلی کے بھیدوں سے دور، جنگل کے رازوں کی طرف۔۔۔
(جاری ہے...)
جاری ہے…
اگر پسند آیا تو اپنے دوستوں سے شیئر کریں اور اگلی قسط پڑھنے کے لیے فالو کریں۔
No comments:
Post a Comment