Salsabeel
رات کے وقت سب دبے پاؤں اپنے کمروں سے نکلے۔ دادی اور گھر کے بڑے سو چکے تھے، اور اب ان کا اصل ایڈونچر شروع ہونے والا تھا۔ علی نے فلیش لائٹ سنبھالی، زین نے پانی کی بوتلیں بیگ میں ڈالیں، اور سارہ نے سن گلاسز پہن کر مزاحیہ انداز میں کہا، "بھئی، رات کے وقت بھی اسٹائل ضروری ہے۔"
"پاگل! یہ جنگل ہے، کوئی فیشن شو نہیں۔" نتاشا نے ہنستے ہوئے کہا۔
شمیر نے جلدی سے دروازہ کھولا، اور سب آہستہ سے باہر نکل آئے۔ ٹھنڈی ہوا نے چہرے کو چھوا، اور رات کی خاموشی میں جھینگروں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
"اب ہمیں زیادہ احتیاط سے چلنا ہوگا۔ کسی کو خبر نہیں ہونی چاہیے کہ ہم باہر گئے ہیں۔" علی نے سرگوشی میں کہا۔
چند منٹوں میں وہ جنگل کے کنارے پہنچ چکے تھے۔ اندھیرے میں درختوں کے سائے عجیب سے لگ رہے تھے، جیسے وہ سب کچھ دیکھ رہے ہوں۔
"یہ واقعی خطرناک لگ رہا ہے..." سارہ نے دھیرے سے کہا۔
"ڈرپوک نہ بنو، ہم بس تھوڑا سا اندر جا کر دیکھیں گے اور واپس آ جائیں گے۔" زین نے کہا۔
وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگے۔ اچانک، علی رک گیا۔ "یہ دیکھو! یہاں کوئی نشان بنا ہوا ہے۔" اس نے درخت کے تنے کی طرف اشارہ کیا جہاں کوئی پرانا نشان کھدا ہوا تھا۔
"یہ کسی نے یہاں کیوں بنایا ہوگا؟" سارہ نے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
"یہ بہت پرانا لگ رہا ہے... شاید یہاں کچھ چھپا ہو؟" زین نے سوچتے ہوئے کہا۔
سب نے ایک دوسرے کو حیرانی سے دیکھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی بہت بڑے راز کے قریب پہنچ چکے ہوں۔
جنگل کا سفر سب کے لیے ایک معمولی تفریحی منصوبہ تھا، مگر انیہ کے لیے یہ ایک انجان خوف کی دہلیز تھی۔ جیسے ہی وہ جنگل کے بیچوں بیچ پہنچے، انیہ کو اچانک ایک عجیب سا احساس ہوا۔ وہ نظارہ جو اس نے اپنے خوابوں میں بار بار دیکھا تھا، آج حقیقت بن کر اس کے سامنے کھڑا تھا۔
بغیر کچھ بتائے، وہ ایک غیر مرئی کشش کے تحت اس راہ پر چل پڑی۔ سبھی اپنی دنیا میں مگن تھے، کسی نے اس کی خاموش روانگی کو محسوس نہ کیا۔ جیسے ہی وہ گھنے درختوں کے درمیان پہنچی، اس کی نظر ایک سائے پر پڑی۔ وہی سایہ، وہی غیر واضح شکل، جو وہ خواب میں بارہا دیکھ چکی تھی۔
وہ دیکھتی ہے کہ ایک نوجوان لڑکا زمین کھود رہا ہے۔ انیہ کے اندر ایک انجانا خوف اور بےچینی جاگ اٹھتی ہے۔ اس کے منہ سے ایک زوردار چیخ نکلتی ہے، جو جنگل کی خاموشی کو چیر کر سب کے کانوں تک پہنچتی ہے۔
علی، عمر، زین، شمیر، اور باقی سب اس کی طرف بھاگتے ہیں۔ مگر انیہ کی حالت کچھ اور ہی بیان کر رہی تھی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں، سانسیں تیز ہو رہی تھیں، آنسو اس کے چہرے کو بھگو رہے تھے، اور سب سے خوفناک منظر یہ تھا کہ وہ اپنے ہی گلے پر ہاتھ مار رہی تھی۔ کچھ لمحوں بعد، وہ اپنا گلا دبانے لگتی ہے جیسے وہ کسی ان دیکھی طاقت کے شکنجے میں جکڑی جا رہی ہو۔
سب گھبرا جاتے ہیں، علی اور عمر فوراً اس کے ہاتھ پکڑ کر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ دیر کی جدوجہد کے بعد، انیہ بےہوش ہو جاتی ہے۔ علی اسے جلدی سے اٹھا کر گاڑی تک لے آتا ہے۔ لڑکیاں اور زین خوف سے رو رہے تھے، جبکہ علی اور عمر کی پریشانی چہروں سے عیاں تھی۔
سارہ کہتی ہے، "ہمیں فوراً ڈاکٹر کے پاس لے جانا چاہیے۔ جس ڈاکٹر سے انیہ کا علاج چل رہا ہے، اسی سے رابطہ کرتے ہیں۔"
علی کی ہدایت
راستے میں علی ناتاشا کو کال کر کے تاکید کرتا ہے، "گھر میں کسی کو بھی جنگل جانے کا مت بتانا۔ بس یہ کہہ دینا کہ انیہ کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی تھی، اس لیے اسپتال لے جانا پڑا۔"
گھر میں جب یہ خبر پہنچتی ہے تو سب پریشان ہو جاتے ہیں۔ شمیر علی کو کال پر سن کر غصے سے کہتا ہے، "اگر انیہ کی طبیعت خراب ہو رہی تھی تو بڑوں کو جگانا چاہیے تھا! تم لوگوں نے خود ہی فیصلہ کیوں کر لیا؟"
اسپتال میں…
دادی کی بےچینی بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ زبردستی زافر چچا سے کہتی ہیں، "مجھے بچی کی فکر ہو رہی ہے، مجھے لے چلو اسپتال!"
زافر چچا فوراً دادی کو ساتھ لے کر اسپتال پہنچتے ہیں۔ دادی انیہ کے چہرے کو دیکھ کر تڑپ اٹھتی ہیں۔
زافر چچا غصے میں ڈاکٹر سے پوچھتے ہیں، "یہ حملے انیہ کو بچپن سے آ رہے ہیں، ابھی تک اس کا کوئی علاج کیوں نہیں ہو سکا؟ آپ نام کے ڈاکٹر ہی لگتے ہیں!"
ڈاکٹر نرمی سے جواب دیتا ہے، "پریشان مت ہوں۔ ہم نے انیہ کے کچھ ضروری ٹیسٹ کیے ہیں۔ جیسے ہی رپورٹس آئیں گی، سب واضح ہو جائے گا۔ اور ویسے بھی، آپ جانتے ہیں، جب سے انیہ کے والد کا انتقال ہوا ہے، تب سے یہ حملے زیادہ ہو گئے ہیں۔ یہ زیادہ تر ذہنی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ علاج کے ساتھ ساتھ گھروالوں کا سپورٹ بھی بہت ضروری ہے۔"
دادی کو سب سے پہلے شمع کا رویہ یاد آتا ہے، جو ہمیشہ انیہ کے ساتھ سخت رہی تھی۔
رات میں…
شام پانچ بجے انیہ کو اسپتال سے گھر لے آیا جاتا ہے۔ سب کزنز اس کے گرد بیٹھ کر اس کا دل بہلانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر انیہ کے دماغ میں بس وہی رات کا منظر گھوم رہا تھا۔ وہ کسی کو کچھ بتانے کے لیے تیار نہیں تھی، بس خاموشی اختیار کر لی تھی۔
زین کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں، ناتاشا بھی اس سے الجھنے لگتی ہے۔ انیہ کو ان سب کی باتوں سے سخت الجھن ہونے لگتی ہے۔ وہ غصے سے کہتی ہے، "مجھے نیند آ رہی ہے، پلیز سب یہاں سے چلے جاؤ۔"
سب حیران ہو کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگتے ہیں۔ انیہ نے کبھی اس طرح کا رویہ نہیں اپنایا تھا۔ سب آہستہ آہستہ کمرے سے نکل جاتے ہیں، صرف اس کی ماں اور دادی پیچھے رہ جاتی ہیں۔ مگر کچھ دیر بعد وہ بھی باہر چلی جاتی ہیں۔
انیہ لیٹ جاتی ہے، اور جیسے ہی اس کی آنکھ لگتی ہے، ایک اور خواب اس کا منتظر ہوتا ہے…
خواب میں…
ایک عورت، جس کا دماغی توازن ٹھیک نہیں لگتا، انیہ کو گھورتے ہوئے کہتی ہے:
"میں نے تمہیں پہلے ہی کہا تھا، اس کتاب کی قیمت چکانی پڑے گی! مگر تم نے ضد کی کہ یہ تمہیں پسند ہے، تم نے خود اسے چُنا تھا۔ اب اس کا انجام بھی تمہیں ہی بھگتنا پڑے گا۔"
انیہ خوفزدہ ہو کر کہتی ہے، "مگر میں نے تو بس سلسبیل چُنا تھا، تو پھر یہ ’آن‘ کہاں سے آ گیا؟"
وہ عورت پاگلوں کی طرح ہنسنے لگتی ہے اور کہتی ہے، "اب بھی وقت ہے، اپنے قدم روک لو۔ ہر خوبصورت چیز اچھی نہیں ہوتی۔ مگر تمہاری ضد برقرار ہے، تم باز نہیں آؤ گی! اس تباہی کے سفر میں تم خود کو جھونکنے جا رہی ہو۔"
انیہ بدستور کہتی ہے، "میں نے تو بس سلسبیل کا انتخاب کیا، تو یہ ’آن‘ کیوں آ گیا؟"
وہ عورت غصے سے کہتی ہے، "یہی تمہاری ضد ہے، اسی لیے تمہیں انجام تک پہنچنا ہی ہوگا! تمہارے راستے میں گمراہی کے سودے کی بے انتہا چالاکیاں ہیں!"
انیہ ’سلسبیل‘ کی راہ پر چل پڑتی ہے، مگر اچانک اسے وہی کھائی نظر آتی ہے، جو آن کھود رہا تھا۔ وہ اسے گرنے سے بچا لیتا ہے، اور انیہ خوش ہو کر کہتی ہے، "آن نے مجھے بچا لیا!"
مگر اگلے ہی لمحے آن اسے کھائی میں دھکا دے دیتا ہے۔ انیہ چیختی ہے اور اچانک نیند سے جاگ جاتی ہے۔
دادی فوراً اٹھ کر اس کے قریب آتی ہیں، مگر جیسے ہی وہ دیکھتی ہیں، انیہ کی حالت پھر خراب ہونے لگتی ہے۔ وہ بےاختیار اپنا گلا دبانے لگتی ہے۔
دادی چیخ چیخ کر سب کو بلاتی ہیں…
اندھیرے خواب، انجانے راز اور سلسبیل کا پراسرار سفر جاری ہے…! کیا انیہ حقیقت اور خواب کے درمیان چھپے اشاروں کو سمجھ پائے گی؟
اگر پسند آیا ہے تو شیئر کریں اور فالو کریں! 📖💫
#Salsabeel #UrduNovel #Mystery #LifeBitsByMe #FollowForMore
No comments:
Post a Comment